18 سال بعد خاتون سابقہ شوہر سے نان و نفقہ لینے میں کامیاب ہوگئی۔ فریقین 18 سال بعد عدالت کے روبرو معاہدے پر رضا مند ہوگئے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت نے سابقہ شوہر کو 25 لاکھ روپے ادا کرنے کا حکم دیدیا۔

کراچی(کورٹ رپورٹر) 18 سال بعد خاتون سابقہ شوہر سے نان و نفقہ لینے میں کامیاب ہوگئی۔ فریقین 18 سال بعد عدالت کے روبرو معاہدے پر رضا مند ہوگئے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت نے سابقہ شوہر کو 25 لاکھ روپے ادا کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے ہدایت دی ہے کہ رقم 5 اقساط میں اگلے سال تک ادا کی جائے۔ اس سے قبل خاتون نے نان و نفقہ کے لیے 2007 میں کورٹ سے رجوع کیا تھا، تاہم مدعا علیہان کی عدم حاضری پر عدالت نے ڈگری جاری کردی تھی، 2016 میں درخواست گزار نے عدالتی حکم پر عملدرآمد کرنے کے لئے درخواست دائر کی، تاہم اتنے سال بعد درخواست دائر کرنے پر عدالت نے مسترد کردی، بعد ازاں سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے بھی اپیلیں مسترد کردی، اُسکے بعد 2018 میں خاتون نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، سپریم کورٹ نے اپیل منظور کرتے ہوئے نان و نقفہ دینے کا حکم جاری کیا، اس حکم کے بعد مدعا علیہان نے عدالت سے رجوع کیا کہ کیس دائر کرتے واقع اُسکا غلط ایڈریس دیا گیا تھا، مدعا علیہان کی یہ درخواست 2019 اور اس پر اپیل 2020 کو مسترد کردی گئی، مدعا علیہان نے پھر سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا، ہائیکورٹ نے 2023 میں اُسکی درخواست منظور کرلی، سندھ ہائیکورٹ کیس کو دوبارہ ٹرائل کورٹ بھیج دیا، خاتون نے یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، سپریم کورٹ نے درخواست نمٹاتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو جلد از جلد فیصلہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت نے درخواست پر فیصلہ سنادیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نے فریقین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا، تین مراحل کے بعد فریقین ایک معاہدے پر رضا مند ہوئے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ 25 لاکھ روپے کی رقم ادا کرنے کے بعد فریقین ایک دوسرے پر کوئی کلیم نہیں کرینگے۔

================

“جامعہ کراچی میں ایک اور حادثہ”
صبح سویرے جامعہ کراچی میں ایک اور طلبہ انیقہ سعید پوائنٹ بس کی زد میں آکر جابحق ہوگئی۔۔۔۔حیرت انگیز طور پر وائس چانسلر خالد عراقی سمیت پوری انتظامیہ نے موت کی زمہ دار خود انیقہ کو قرار دیتے ہوئے میڈیا کو ہدایت کی کہ انیقہ سعید بس سے اترتے ہوئے بس کی زد میں آکر جابحق ہوئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا جامعہ کراچی کے موقف کو ایسے پیش کررہا ہے جیسے پورا سچ یہ ہی ہے، جبکہ پوائنٹ میں سوار طلبہ کا کہنا ہے کہ پوائنٹ سے تمام طلباء سلور جوبلی گیٹ پر معمول کے مطابق اتر کر اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف جارہی تھیں، سوشل ورکرز ڈیپارٹمنٹ کی طلبہ انیقہ بس سے اتر کر روڈ کراس کر کے میتھمیٹکس ڈیپارٹمنٹ کی طرف جاتے ہوئے تیز رفتار پوائنٹ کی زد میں آکر جابحق ہوئی ہے، دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جامعہ کراچی کی انتظامیہ جانتی ہے کہ ڈرائیور کو بچا لینگے اسی لئے انہوں نے از خود ڈرائیور کی گرفتاری کروائی اور والدین کو کسی قسم کی کاروائی نہ کرنے پر راضی بھی کرلیا، سب سے بڑا سوال میڈیا کے ان نمائندوں سے بنتا ہے جو جامعہ کراچی کے طالب علم بھی ہیں کہ وہ اپنی ڈگری کی خاطر بغیر کسی تحقیات کے صرف جامعہ کراچی کا موقف کیوں نشر کررہے ہیں، کیا ان کی ڈگری انیقہ سعید سے زیادہ اہم ہے، کیا جامعہ کراچی کی انتظامیہ انہیں فیل کروادے گی، کیا ان میڈیا کے دوستوں کے پاس ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں۔۔۔۔۔۔

==============

جوڈیشل مجسٹریٹ غربی نے اورنگی ٹاؤن میں گھریلو تنازع پر بیوی کے ہاتھوں شوہر کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ملزمہ کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کی عدالت کے روبرو اورنگی ٹاؤن میں گھریلو تنازع پر بیوی کے ہاتھوں شوہر کے قتل کا مقدمے میں گرفتار ملزمہ نور العمائمہ کو پیش کیا۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ مقتول اور ملزمہ کے درمیان عدالت میں خلع کا کیس چل رہا تھا۔ مقتول رات کے وقت اپنے دوست کے ہمراہ سسرال آیا۔ مقتول دیوار پھلانگ کر داخل ہوا اور ملزمہ پر فائرنگ کردی۔ ملزمہ نے جوابا فائرنگ کی جس سے مقتول زخمی ہوگیا۔ ملزمہ نے پھر چھری سے مقتول پر وار کیئے۔ ملزمہ سے برآمد ہونے والے اسلحہ اور چھری کے حوالے سے معلومات کرنی ہے۔ اصل حقائق کا پتا بھی لگانا ہے۔ عدالت نے ملزمہ کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرتے ہوئے تفتیشی افسر سے آئندہ سماعت پر پیشرفت رپورٹ طلب کرلی۔ پولیس کے مطابق ملزمہ کیخلاف تھانہ اقبال مارکیٹ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

سندھ ہائیکورٹ نے لیاری بغدادی میں عمارت گرنے سے 27 افراد کے جاں بحق اور 4 افراد کے زخمی ہونے مقدمے میں مالکان کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔ جسٹس عمر سیال کی سربراہی جسٹس حسن اکبر پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو لیاری بغدادی میں عمارت گرنے سے 27 افراد کے جاں بحق اور 4 افراد کے زخمی ہونے مقدمے میں مالکان کی درخواست ضمانت کا فیصلہ سنادیا۔ عدالت نے عمارت کے مالکان رحیم بخش اور تاج محمد کی ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے ملزمان کو جیل سے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے دونوں ملزمان کو 5، 5 لاکھ روپے مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا ہے۔ سیشن کورٹ نے بلڈنگ مالکان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی۔ پراسیکیوٹر نے مووف دیا تھا کہ ملزمان ذاتی فائدے کیلئے 27 افراد کی جان جانے کا سبب بنے۔ ملزموں کی غفلت نے معاشرے میں غیریقینی صورتحال پیدا کردی ہے۔ ملزمان کی ضمانت مسترد کی جائے۔ ملزمان کے وکیل شوکت حیات ایڈووکیٹ نے موقف دیا تھا کہ پولیس نے عمارت گرنے سے متعلق شواہد کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ ملزمان ٹرائل کا سامنا کررہے ہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔ مقدمے میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے 10 افسران کی سیشن کورٹ سے ضمانت ہوچکی ہے۔ ملزمان کیخلاف غفلت، لاپرواہی اور قتل بالسبب کا مقدمہ درج ہے۔