صحت حفاظت کے بہترین معیارات پر انگلش بسکٹ کمپنی EBM روسپا ایوارڈز کی ٹاپ 7 کیٹگریز میں جگہ بنانے میں ناکام ، گولڈ میڈل بھی نہ مل سکا ۔

صحت حفاظت کے بہترین معیارات پر انگلش بسکٹ کمپنی EBM روسپا ایوارڈز کی ٹاپ 7 کیٹگریز میں جگہ بنانے میں ناکام ، گولڈ میڈل بھی نہ مل سکا ۔ تفصیلات کے مطابق پاکستانی بسکٹ انڈسٹری میں صف اول کی بسکٹ کمپنی کی حیثیت رکھنے والی انگلش بسکٹ مینوفیکچررز EBM کمپنی کی انتظامیہ نے صحت اور حفاظت کے بہترین میعاد کے حوالے سے اپنی کارکردگی کو عالمی سطح پر جانچنے کے مقابلے میں اس اعتماد کے


ساتھ پیش کیا تھا کہ اسے ذرا جائے گا اور بہترین پرفارمنس کیٹگری کا ایوارڈ ملے گا ۔ لیکن کمپنی کی توقعات پوری نہ ہوسکیں ۔دنیا بھر سے اس مقابلے میں حصہ لینے والی کمپنیوں ا ی بی ایم ٹاپ 7 کیٹگریز میں جگہ بنانے میں ناکام رہی ۔کمپنی کو گولڈ میڈل بھی نہ مل سکا ۔بمشکل آٹھ وی کیٹگری میں سلور ایوارڈ جیتنے والی 158 کمپنیوں میں شامل کیا گیا ۔بسکٹ کمپنی پیٹرن ایوارڈ کے حصول میں بھی ناکام رہی ۔کمپنی کو آرڈر آف ڈسٹنکشن

اور اس کے علاوہ پریذیڈنٹ ایوارڈ کیٹگری اور گولڈ میڈل ایوارڈ کیٹگری اور گولڈ ایوارڈ کی فہرست میں بھی شامل نہیں کیا گیا جبکہ گولڈ ایوارڈ اور دیگر اعلی کیٹگری ایوارڈ دیگر عالمی کمپنیوں نے جیت لئے ۔ انگلش بسکٹ کمپنی نے پاکستان میں میڈیا کو

صرف اتنا بتایا کہ کمپنی نے عالمی سطح پر روسپا سلور ایوارڈ جیت لیا ہے۔ کمپنی نے دعوی کیا کہ یہ بہترین کارکردگی کا اعالمی اعتراف ہے جس پر اسٹاف مبارکباد کا حقدار ہے ۔ بزنس حلقوں میں ای بی ایم کمپنی


کو ملنے والے ایوارڈ پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے کے ایک پاکستانی کمپنی نے یہ ایوارڈ جیت لیا ہے لیکن بزنس حلقوں میں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ سلور ایوارڈ کیٹگری میں نام حاصل کرنے کا صاف مطلب ہے کہ گولڈ میڈل کیٹیگری کے معیار پر ہم پورا نہیں اتر سکے اس کے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ابھی گولڈ میڈل حاصل کرنے کے لئے کمپنی کو مزید محنت کرنا ہوگی اس کا مطلب ہے کہ عالمی سطح کے معیار کے حوالے سے ابھی کمپنی کے صحت اور حفاظت کے معیار کاپی نیچے ہیں ان کو مزید اوپر لے کر جانا ہوگا ۔ بزنس حلقوں کا کہنا ہے کہ کمپنی نے یہ ہمت کی کہ عالمی مقابلے میں گئی ۔ اس ہمت کی کمپنی کو داد ضرور ملنا چاہیے اور اس کوشش پر کمپنی کی

مینجنگ ڈائریکٹر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر زیلاف منیر اور ان کی ٹیم کو سراہا جانا چاہیے اور امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے برسوں میں یہ کمپنی سلورمیڈل کی بجائے گولڈمیڈل کیٹیگری میں ایوارڈ حاصل کرکے سبز ہلالی پرچم کو سربلند رکھے گی پاکستان کے لئے مزید محنت جاری رکھے گی یاد رہے کہ اس ایوارڈ کے حصول کے لیے بین الاقوامی سطح پر 2000 سے زائد ادارے اپنی بہترین کارکردگی پر بہتر سے بہتر روڈ حاصل کرنے


کی کوشش کرتے ہیں سب کو گولڈ میڈل نہیں ملتا نہ ہی پریذیڈنٹ ایوارڈ ملتا ہے لیکن گولڈ ایوارڈ حاصل کرنے اور پیٹرن ووٹ کے حصول کے لیے ہر کمپنی پوری کوشش کرتی ہے اور صحت اور حفاظت کے بہترین معیارات پر پورا کرنے کے لئے اسے مزید محنت کرنا پڑتی ہے ۔

==============================================